حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اس وقت عالمی سیاست کےمنظرنامہ میں مسئلہ فلسطین پوری دنیاکی توجہ کامرکز بن چکاہے۔اسرائیل،امریکہ اوران کی ہم نوالہ و ہم پیالہ عرب ریاستیں GreaterIsrael کےمنصوبہ پرمل کر کام کررہی ہیں۔عرب پٹھوریاستوں نےامن معاہدہ کےذریعہ اسرائیل سےسفارتی وتجارتی تعلقات بحال کرنے کااعلان کیاہےجس کی وجہ سےفلسطین اوراس کی تحریک آزادی کےحامی ممالک شدیدغم و غصہ میں ہیں۔عالم اسلام کی مسئلہ فلسطین سےتوجہ ہٹانےکےلئے خطہ کے چند ممالک میں فرقہ وارانہ فضاقائم کی گئی ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اس صورتحال سےمتاثرہواہےاورگذشتہ کئی ماہ سےمذہبی منافرت اورتعصب پھیلانے والی قوتوں کی زدمیں ہے۔
امت واحدہ پاکستان کےسربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ محمدامین شہیدی نےاس سیاسی منظرنامہ پر تفصیلی گفتگوکی جوہم اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
سوال: فرقہ واریت کی موجودہ لہر کے پسِ پشت کون سےمحرکات اور عوامل کارفرماہیں؟
جواب: فرقہ واریت کی موجودہ لہرکا تعلق بین الاقوامی سیاسی منظرنامہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہے۔چونکہ امریکہ GreaterIsrael کےمنصوبہ پر عمل پیرا ہے، لہذااس منصوبہ کی تکمیل کےلئے وہ عرب پٹھو ممالک سےاسرائیل کی حیثیت منوانے میں مصروف ہے۔ دوعرب ممالک "امن معاہدہ” کے نام پراسرائیل کوقبول کرچکےہیں جبکہ باقی پٹھواسی قطارمیں کھڑےہیں۔مسئلہ فلسطین جوعالمِ اسلام کا حساس ترین موضوع ہے،کوپسِ پشت ڈالنے،عالمِ اسلام کی خواہشات کے برعکس اس کافیصلہ کرنےاوراس کےمستقل سیاسی حل کی تلاش کی کوششوں میں رخنہ ڈالنےکی غرض سےفرقہ وارانہ فضاکوقائم کیاگیا۔شیعہ سنی کا مسئلہ فلسطین پرمشترکہ مؤقف ہےاور وہ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہدِآزادی کی بھرپورحمایت کرتے ہیں؛اس لئےان کو آپس میں دست و گریباں کرنےکی سازش کی گئی ۔ پاکستان،انڈیااورچندعرب ممالک میں فرقہ وارانہ مسائل کوبڑھاوادیاگیاتاکہ لوگ ان مسائل میں الجھےرہیں ؛عرب ممالک باآسانی اسرائیل کوتسلیم کرلیں اور مکتبِ تشیع ان کا اصل مسئلہ اورہدف بن جائے۔حال ہی میں امامِ کعبہ نے اپنےجمعہ کےخطبہ میں اسرائیل کو اپنادوست وخیرخواہ قراردیاہے،اس سےقبل وہ برسرِمنبراہلِ تشیع کی توہین کرتےرہےہیں تاکہ لوگ شیعہ برادری سےدُوراورمتنفرہوجائیں۔ یہ سب اچانک نہیں ہوابلکہ ایک سال قبل ہی فرقہ وارانہ فضاکوہموارکرنےکاآغازہوچکاتھا۔
سوال: آپ کےخیال میں مقامی طورپرفرقہ وارانہ فضا کے لئےماحول سازی میں کن عناصرنےکرداراداکیاہے؟
جواب: کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے چند عہدیدارگذشتہ کئی ماہ سےمنبر پربیٹھ کراہلِ بیت علیہم السلام کی ہرزہ سرائی میں مسلسل مصروف تھے،یہاں تک کہ ان تکفیریوں نے چندبریلوی ہمنوابھی پیداکرلئے؛اس مقصدکےلئے پیسہ باہرکااورزبان مقامی استعمال ہوئی۔ قرآن حکیم میں خداتعالی کاواضح ارشادہے: وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ( اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمہاری ہوا بگڑ جائے)اس فرقہ وارانہ ماحول سازی کےنتیجہ میں ہم نےدیکھاکہ حال ہی میں خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں توہین آمیزخاکوں کی دوبارہ اشاعت پرملک میں مسلکی وحدت نظر نہیں آئی جبکہ پہلی باران خاکوں کی اشاعت پر پوراپاکستان اٹھ کھڑاہوا تھا۔
سوال:پاکستان میں فرقہ واریت کےذریعہ بیرونی طاقتیں کن اہداف کےحصول میں کوشاں ہیں؟
جواب:ایک طرف اسرائیل اورامریکہ کا مسئلہ فلسطین کوحسبِ منشاحل کرنےکامقصدعرب ریاستوں کواپنے آگےگھٹنےٹیکنےپرمجبورکرناہے؛تو دوسری جانب خطہ کےباقی ممالک کی معیشت کوکمزورکرناہےتاکہ کوئی بھی ملک امریکہ سےآنکھ ملاکربات نہ کرسکے۔پاکستان کےچین سےمضبوط اقتصادی تعلقات امریکہ کے لئےبہت بڑاخطرہ ہیں؛اس لئےامریکہ نےپاکستان اورچین کےدرمیان طےپانےوالے گیم چینجرسی پیک پراجیکٹ میں سعودی حکومت کے ذریعہ شامل ہونےکی کوشش کی لیکن چین نےپاک سعودی معاہدہ میں ترامیم کے ذریعہ امریکہ کی یہ کوشش ناکام بنادی۔ملک کے امن وامان کوخراب کرنےکےلئےبھی فرقہ وارانہ فضابنائی گئی تاکہ اس اہم ترین پراجیکٹ سےریاستی اداروں کی توجہ بٹ جائےاورسی پیک کونقصان پہنچایاجاسکے۔اگرسعودی عرب اپنی شمولیت کے ذریعہ امریکہ مخالف لابی کےخلاف اقدامات کرےگاتوبھی اس منصوبہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سب سےاہم یہ کہ اس خطہ میں طالبانائیزیشن کاخاتمہ ہونےکوہےاورافغانستان مکالمہ کے ذریعہ امن کی جانب گامزن ہے؛لہذاخطہ میں امن کامستقل قیام امریکہ اوراسرائیل کےاہداف کی تکمیل میں سب سےبڑی رکاوٹ ہے۔
سوال: یہ تاثرکس حدتک درست ہے کہ "پیغامِ پاکستان” عملی طورپرایک غیرمفیددستاویزہے؟
جواب: پیغامِ پاکستان مسلم امہ کووحدت کی دعوت دینےوالی دستاویزہے۔اس دستاویزکےفروغ سےپاکستان اورمسلم امہ کو فائدہ ہوگالیکن اس کی حوصلہ شکنی سےشدت پسنداورفرقہ وارانہ تعصب رکھنےوالےعناصرکوتقویت حاصل ہوگی۔اگرچہ اس دستاویزپرملک کےجیدعلماءکی اکثریت نےدستخط کیےہیں لیکن ایک بڑےطبقہ نےاس کےمتن کونچلی سطح تک پہنچنےنہیں دیااوراعتراض دراعتراض کےنتیجہ میں اس کےنفاذکومشکلات کاشکاربنادیا۔ضرورت اس امرکی ہےکہ حکومت اورریاستی ادارےاس دستاویزکےپیغام کوعوام الناس تک پہنچانےکےلئےزمینی اقدامات کریں۔منبرومساجد،پرنٹ،الیکٹرانک اورسوشل میڈیااوردیگرذرائع کےذریعہ پیغامِ پاکستان کی روح کوعام کیاجائےاورہرمسلمان کوتکفیر،توہین اورہروہ عمل جوفرقہ وارانہ جذبات کوبھڑکانےکاسبب بنے،سےروکاجائے؛اگرایسانہ کیاگیاتواس دستاویزکی افادیت باقی نہیں رہےگی۔
سوال: پاکستان کو ایک بار پھر مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہونے سے بچانے کےلئےعلمائےکرام اور مذہبی جماعتیں کیا کرداراداکرسکتی ہیں؟
جواب: اگرمذہب کےنام پراختلاف پیداکیاجائےاور قتل و غارت گری کابازارگرم کیاجائےتواس انتہاپسندی کولبرل ازم اورسیکولرازم کےذریعہ روکناآسان نہیں ہے؛مذہبی شدت پسندی کوروکنےکےلئےمذہب کاہی سہارالیاجاسکتاہے۔مذہب کامثبت استعمال ضرورہوناچاہیے۔فرقہ وارانہ تعصب کوپروان چڑھانےوالےشدت پسندافراد کےمقابلہ میں معتدل علمائےکرام کوسامنےآناہوگا۔تمام مکاتبِ فکرکےعلماءکوچاہیےکہ وہ منبرومحراب سےلوگوں کو صلح،امن اورباہمی محبت کاپیغام دیں اورفرقہ وارانہ شدت پسندی کےخلاف مل کرکھڑےہوجائیں۔مذہبی رواداری کے حوالہ سے اگر علمائےکرام مشترکات پر کام کریں اورعوام الناس کوایک دوسرے کےمقدسات کےاحترام کا درس دیں توفرقہ واریت کی مارکیٹ سجانے والوں کی دکانیں زیادہ دیر تک نہیں چلیں گی؛کیونکہ ان کا مسئلہ پیٹ اور روٹی ہےلیکن ان کے مقابلہ میں دین کےمشترکات پرکام کرنےوالوں کےپیشِ نظردنیاوآخرت دونوں ہیں اورکامیابی انہی لوگوں کامقدرہے۔
جیسے جیسے انسانی معاشرہ عقل و شعور کی منزلیں طےکرتاہواآگےبڑھتاہے،ویسے ویسےوہ منفی قوتوں کے ہتھکنڈوں سےہوشیاراوربیزارہوتاچلاجاتاہے۔ان تمام پہلووں کومدنظررکھتےہوئےمثبت فکر کےحامل علمائےکرام فرقہ واریت کےجِن کو باآسانی قابو کرسکتے ہیں اور پاکستان امن کاگہوارہ بن سکتاہے۔
سوال: ماضی میں ریاستی عناصر اور حکومتیں ملک کےحالات بگاڑنے میں ملوث رہی ہیں، کیا اب ان کاکردارتسلی بخش ہے؟
جواب: اِس وقت پاکستان تاریخی اعتبار سے نہایت حساس موڑپرکھڑاہے۔اس سےقبل افغان جنگ میں پاکستان امریکہ کااتحادی تھا،روسی افواج سےجہادکےنام پر لاکھوں پاکستانی،قبائلی اور افغان شہریوں کوجنگ کے ایندھن کےطورپراستعمال کیاگیا۔نتیجتًا پاکستان ترقی کی دوڑ میں کئی ممالک سے پیچھے رہ گیا۔
ماضی میں ایسی پالیسیزبنانےوالےاپنےانجام کوپہنچ چکےہیں۔آج کی دنیا ایسی پالیسیزکی متحمل نہیں ہے؛خطہ میں نئےبلاکس کی تشکیل ہورہی ہے۔روس اور چین ساتھ کھڑے ہیں اورامریکہ ان دونوں کا حریف ہے۔ماضی میں پاکستان،روس کےمقابلہ میں امریکہ کےساتھ کھڑاتھالیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوچکاہےاورخطہ کےممالک کاجھکاؤامریکہ کی بجائےچین کی طرف ہے۔امریکہ کی مفادپرست پالیسیوں نےیہ بات ثابت کردی ہےکہ اس کےلئےپاکستان کی حیثیت محض آلہ کار کی ہے۔
سوال: مکتبِ تشیع اورتسنن کےپیروکاردشمن کے ایجنٹ اور کالی بھیڑوں کی شناخت کیسےکرسکتےہیں؟
جواب: یہ کام بہت آسان ہے!جو گروہ بھی مسالک کےدرمیان اختلاف پیداکرکےانہیں آپس میں لڑانےکی بات کرتاہے،وہ دشمن کاایجنٹ ہے۔اوراس کےمقابلہ میں جو گروہ لوگوں کو اخوت اوریکجہتی کی دعوت اور ملکی سالمیت کےلئے مل کر کام کرنےکی ترغیب دیتاہے،وہ دین اور وطن دونوں کا وفادار ہے۔دشمن کےایجنٹ کالی بھیڑیں نہیں بلکہ کالےبھیڑیےہیں۔ان بھیڑیوں کی شناخت نہایت آسان ہے؛ان کی شناخت ان کا پیٹ ہےخواہ یہ کسی بھی فرقہ سےتعلق رکھتے ہوں۔
کالعدم سپاہ صحابہ اوراس جیسی دیگر تنظیمیں گذشتہ چالیس سالوں سے لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادپرلڑانےکاکام کرتی رہی ہیں۔اپنےمخالفین پرجھوٹ باندھنا،تہمت لگانااوران کی کردار کشی کرناان تنظیموں کابنیادی ہدف ہے۔کرپشن،اسلام دشمنی اورناصبیت میں یہ صفِ اول پر کھڑےہیں۔بنابراین ایسے لوگوں کواپنی صفوں سےنکالناہرمعتدل عالمِ دین کی ذمہ داری ہے؛ایسے لوگوں کا تعلق خواہ کسی بھی فرقہ سےہو،ان کے اصل چہروں کو بےنقاب کرنا بیحدضروری ہے۔